دانتوں کی صفائی کا خاص خیال رکھیں۔ کھانے کے ذرات بریسز میں اٹک جائیں تو انہیں نکالنا نہ بھولیں۔ اس کے لیے نرم برش، دھاگا، یا واٹر پک، کا استعمال کیا جا سکتا ہے
اگر کوتاہی کریں گے تو دانتوں کو کیڑا لگنے اور میلوں کے جمنے کی صورت میں ٹارٹر لگنے کا خطرا ہوتا ہے۔ایسی صورت میں اگر کوئی مسئلہ ہو تواس کے علاج کے لیے علیحدہ سے اخراجات لیے جاتے ہیں
برگر،پیزہ،چیونگم،چاکلیٹ،کھجور،یا کوئی اور چپکنے والی یا سخت اشیا کھاناسے بریسز کے اترنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ ان تمام اشیا کا کھانے میں کم سے کم استعمال کریں۔ اگر کوئی،بریسز اتر جائے تو گم نہ کریں بلکہ کلینک ساتھ لے کر آئیں تا کہ اسے دوبارہ اپنی جگہ پر لگایا جا سکے۔ پہلی بار بریسز اترنے کی صورت میں دوبارہ لگا دی جاتی ہے مگر بار بار اترنے کی صورت میں 500 روپے فی بریسز چارج کیا جاتا ہے۔اور گم کرنے کی صورت میں 2000 روپے فی بریسز چارج کیا جائیگا
علاج کے دوران الجھن، چبھن،یا تھوڑے بہت درد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جو عارضی ہوتا ہے۔زیادہ مسئلہ ہو تو ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کریں
دانتوں کے ٹیڑھے پن کو ٹھیک کرنے کے بعد انکے واپس اپنی جگہ آجانے کا خطرہ ضرور ہوتا ہے۔ اس کے لیے ریٹینرretainerاستعمال کرنا پڑتا ہے۔ اگر ریٹینر گم ہو جائے تو ریٹ لسٹ کے مطابق اسکے اخرا جات دینا ہونگے۔ریٹینر زیادہ تر 6 ماہ یا اس سے زیادہ دیر تک استعمال کیا جاتا ہے۔ بعض معاملات میں ریٹینر ساری عمر اپنے پاس رکھنا پڑتا ہے
ٹیڑھا پن ٹھیک کرنے کی صورت میں قدرتی دانت کو نکلوانا، یا رگڑوانا پڑ سکتا ہے
دانتوں کے ٹیڑھے پن کا علاج بہت لمبا ہوتا ہے اور اس ک دوران متعدد چکر لگانے پڑتے ہیں اور مختلف قسم کی تاریں یا اپلا ئنسز کا استعمال کیا جاتا ہے جس کے اخراجات مریض سے لیے جاتے ہیں۔نیزکسی بھی علاج میں تاخیر کی صورت میں اگر کوئی اضافی اخرا جات سامنے آئیں تو مریض کو ادا کرنا ہونگے
علاج کے دورانیے اور لگنے والے چکروں کے بارے میں اپنے ڈاکٹر صاحب سے رہنمائی ضرور لیں، یہ دورانیہ ۶ ماہ سے ۲ سال یا اس سے زیادہ بھی ہو سکتا ہے
کسی بھی قسم کی بریسز گم کرنے، اپلائنس توڑنے کی صورت میں مریض کو اخرا جات دینے ہونگے
جبڑے کی سرجری کی صورت میں اخراجات علیحدہ سے ادا کرنے ہوں گے
تمام اخراجات ناقابل واپسی ہیں۔اس لیے ہر کام کی تسلی فورا کر لیں کہ آپ جو اخرا جات دے رہے ہیں وہ کس کس چیز کے لیے ہیں اگر علاج درمیان میں بدلنا پڑ جاتا ہے تو اخراجات بھی بدل سکتے ہیں۔ مسائل کی صورت میں ڈاکٹر صاحب کو اطلاع دیں اور دی جانے والی ہدایات پر عمل کریں